اسعدِ
مدنی فدائے ملت و دین و وطن ملتِ اسلامیہ کی آبرو ، فخرِ
زمن
رہنمائے
ملک و ملت ، قائدِ عہدِ رواں تھے امیر الہند ثانی ، نازشِ
ہندوستاں
حضرتِ
مدنی ، حسین احمد کے ابنِ ہوشمند بتکدانِ ہند پر ، اسلام کی ڈالی
کمند
ان
سے دو بالا رہی ہے عظمتِ دارالعلوم ان سے وابستہ رہی ہے ، نسبتِ
دارالعلوم
صدر
جمعیة رہے ، بہتر امیرِ کارواں رہتی دنیا تک ، دَرَخشاں ہوگا
، نقشِ جاوداں
اک
مفکر ، اک مدبر ، ایک قومی رہنما کاروانِ اہلِ حق کا ، ایک سچا ، پیشوا
تھے
وہ جمعیة کے صدرِ محترم چونتیس سال مشعلِ راہِ طریقت ، پیکرِ فضل
وکمال
تھے
وسیع الفکر ، عالی ظرف ، قائد ، باوقار صاحبِ فہم و فراست تھے مجاہد جاں نثار
دور
اندیشی صفت تھی ، خوب تھا اظہارِ رائے مرگِ اسعد# پر ، زمانہ کررہا ہے ہائے ہائے
وہ
علمبردارِ حق تھے ، عہد کے رجلِ عظیم صاف گوئی کی علامت ، صاحبِ
قلبِ سلیم
ایم
پی ، تھے محترم ، وہ بے گماں اٹھارہ سال سرپرستِ قومِ مسلم ، رہنمائے خوش خصال
قومِ
مسلم کی جہاں میں ، معتبر آواز تھے عشقِ حق میں تھے فنا، وہ اہلِ سوز و
ساز تھے
وہ
محاسن کے تھے پیکر ، اسعدِ ملت تھے وہ ہاں زمانے میں مثالی ، قائدِ
ملت تھے وہ
عہدِ
حاضر کے اکابر میں رہے وہ بے مثال کارنامے ، شیخِ اسعد کے ہوئے ہیں
لازوال
سادگی
، سنجیدگی ، مجد و شرافت میں تھے طاق ان کی آراء ، پر مکمل ہورہا تھا ،
اتفاق
تھے
مریدوں کے مربّی ، رہبرِ اہلِ سلوک کررہے
تھے، ہرکس وناکس سے وہ اچھا سلوک
رہبرائے
معرفت تھے ، صاحبِ نسبت رہے عالمِ دیں ، متقی تھے ، مصلحِ
امت رہے
دے
گئے ہیں ، قومِ مسلم کو وہ تعلیمی شعور ہے دعا کہ : سرخرو ، ہوکر اٹھیں
، یومِ نُفور
وہ
تھے گونا گوں ، صفاتِ فاضلہ سے متصف ان کی ہمدردی کے ہیں
اپنے پرائے معترف
ان
کی فرقت سے ہوا ، محصول ، رنجِ جانگُسِلْ مدتوں روتے رہیں گے ، یاد
کرکے ، اہلِ دل
اسعدِ
مدنی کے ہیں لاکھوں ، کروڑوں سوگوار جو
کہ ، ہیں ان کی جدائی پر برابر اشکبار
سب
دعا گو ہیں ، الٰہی : کر انہیں جنت عطا اور دے پسماندگوں کو ، جذبہٴ صبر و
رضا
ان
کی تربت کو بنادے ، نازشِ دارِ نعیم حشر میں ان کو عطا کر ، سایہٴ
عرشِ عظیم
ہے
”ولی“ کی یہ دعا ! ہو جنت الماویٰ نصیب روز محشر ، اسعدِ مدنی رہیں تیرے
قریب
تیری
تربت پر، زمانہ فاتحہ خوانی کرے تا قیامت رحمتِ باری ، نگہبانی
کرے
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد:
90 ،صفر1427 ہجری مطابق مارچ2006ء